حضرت آیۃ الله العظمی ڈاکٹر صادقی تهرانی کے بارہ میں

مجاهد فقیہ و مفسّر،محقّق حضرت آیۃ الله العظمی ڈاکٹر صادقی تهرانی (طاب ثراہ) کی علمى اور سیاسى سوانح حیات۔
آیۃالله العظمی محمد صادقى تهرانى(طاب ثراہ) ایک روحانی اور علمی گھرانے میں پہلی فروردین 1305 (هجرى شمسى) کو تہران میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد گرامی مرحوم حاج رضا لسان المحققین تہران کے مشہور و معروف واعظین اور خطباء میں شمار ہوتے تھے۔ یہ علامہ مجاھد اور قرآن مجید کے گرانقدر اور عظیم مفسر ،عالم تشیع کے مرجع اور فقیہ اور مصلح قرآنی پہلی فروردین 1390(هجری شمسی) اپنی 85سالہ با برکت عمر قرآنی میں خالص افکار کی ترویج،قرآنی انقلاب کو عام کرنے،تمام دینی اور حوزوی علوم اور اجتماعی میدانوں میں شائع اور عام کرنے ،معصومین محمدی (صلوات الله علیهم اجمعین)کے حریم کا دفاع کرنے اور ظلم و ستم کے خلاف مقابلہ کرنے اور امت مسلمہ کو بیدار کرنے میں پیش قدم ،فقہ گویا کی بنیاد پر قرآنی گرانقدر آثار کی تالیف کی راہ میں انتھک کوشش کرنے اور قرآنی متروک احکام کا دفاع کہ آخر الامر اپنی مھجوریت پر تمام ہوا،کرنے کے بعد شہر مقدس قم میں واقع اپنے ذاتی مکان میں عرفانی حالات میں نماز عصر کا اعادہ کرتے ہوئے اور«یا الله»کہنے کے بعد بلافاصلہ داعی عجل کو لبیک کہا اور آپ کی بلند و بالا رحمت حق سے جاملی۔
و سَلامٌ عَلَیهِ یَومَ وُلِدَ وَ یَومَ یَموتُ وَ یَومَ یُبعَثُ حَیّاً.
خورشید مرجعیت و مرد کلام حقمرجعیت کا سورج اور حق بیانی کا خوگر انسان
طلوع بہاروں کے آغاز میں غروب کرگیا
اس کے بعد میں اور حیرت اور سوال سے لبریز ذہن
افسوس صد افسوس کئ سچوں کا ناصر و مددگار غروب کرگیا
(مهبد، فروردین 90)
آپ کے علمی پہلو
  • اس مایہ ناز اور شہرہ آفاق عالم دین کے علمی پہلووں کو کہ آیہ کریمہ«الّذینَ یُبَلِّغونَ رِسالاتِ اللهِ وَ یَخشَونَهُ وَ لایَخشَونَ اَحداً إلا اللهَ»کے واقعی اور عینی مصداق تھے اورملامت کرنے والوں کی ملامت انھیں راہ حق سے روک نہ سکی،اس عالم متبحر اور چراغ درخشاں کی اس طرح توصیف کی جاسکتی ہے::جامع معقول و منقول
  • حوزہ اور یونیورسیٹی کے درمیان اتحاد و یکجہتی کا کامل مصداق
  • الفرقان نامی گرانمایہ اور قابل افتخار تفسیر کا مفسر جو قرآن اور سنت سے قرآن کی مکمل ترین تفسیر کہ مرحوم علامہ طباطبائی(رہ) نے بھی اس کے بارے میں فرمایا ہے: «تفسیر شریف فرقان کی زیارت ہماری آنکھوں کا نور اور مایہ افتخار ہے...»
  • قانون (عرضہ کتاب) کا زندہ کرنے والا تجزیاتی اور غیر تجزیاتی
  • تمام حوزوی علوم اور آزاد خیال ہر مفکر کی صورت قرآن و سنت کی روشنی میں قرآن کی تفسیر
  • قرآن مخالف 500 سے زیادہ فتووں کا انکار کرنے والے
  • اکثر سنتی اصول فقہ کے مباحث پر تنقید کرنے والے
  • ارسطو کی منطق میں 66تناقضات کی یاد آوری کرنے والے
  • اسلامی اور یونانی التقاطی فلسفہ کے اصلی ارکان کے منکر
  • حوزہ کے بعض عرفان نظری کے اصول پر تنقید کرنے والے
  • علم نحو بلکہ بعض عربی لغات پر تنقید کرنے والے
 
آپ کی مختصر سوانح حیات
آپ کی مختصر سوانح حیات کے تسلسل میں خرداد 1373 (ھ ۔ش) بنیاد تاریخ انقلاب اسلامی کی فرمائش اور درخواست پر خود مرحوم کے قلم سے اس طرح زیور تحریر سے آراستہ کیا گیا ہے:
« بسم الله الرحمن الرحیم »
...13 سال کی عمر تک جب ہمارے والد گرامی قید حیات میں تھے آٹھویں کلاس تمام کی اس کے بعد مرحوم امام خمینی (رہ) کے عظیم المرتبت استاد مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد علی شاہ آبادی کے عرفانی ،اخلاقی اور تفسیری حلقہ دراس میں شامل ہوگئے۔اس کے ساتھ ہی ایک سال کے اندر مقدماتی دروس (ادبیات عرب) بھی پڑھنا شروع کردیا ۔اس کے بعد 1320 میں قم کے لئے روانہ ہوگئے اور 3سال کی مدت میں سطح کے دروس یعنی ابتدا سے کفایتین کے دروس تمام کر دیئے۔.
اس کے بعد...

1323 میں مرحوم آیۃ اللہ بروجردی قم تشریف لائے تو میں نے ان کے دروس میں انتہائی سرگرمی سے شرکت کی اور اس درجہ انہماک اور لگن سے درس و بحث میں مشغول ہوا کہ فقہی مسائل میں رای جاننے لگا اس کے بعد فطری طور پر فقہ،فلسفہ ،عرفان اور تمام اسلامی علوم میں دیگر اساتذہ سے کسب فیض کرنے لگا۔ لیکن میرا اصلی محور میرا فکری انقلاب یعنی مرحوم آیۃ اللہ شاہ آبادی کے نزدیک سب سے پہلی علمی تحریک تھی کہ قرآنی تحریک سے آغاز ہوا جس کا سلسلہ ابتک جاری و ساری ہے لہذا ہماری تمام حوزوی تعلیمات اور سارے مولفات اسی کی روشنی میں تھے اور ہیں ان کے بعد ہمارے تفسیری،عرفانی،فلسفی اور اخلاقی درجات کے استمرار میں مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ علامہ طباطبائی بہت بڑا کردار رہا ہے.

میں نے ان دونوں عظیم ہستیوں کے دروس میں 7سال شرکت کی اور قم سے تہران کے متعدد اور بے شمار سفروں میں مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا مہدی آشتیانی اور مرحوم میرزا احمد آشتیانی کے فلسفی دروس سے کافی استفادہ کیا اگر چہ مرھوم آقا شاہ آبادی سے جو میں نے علمی استفادہ کئے ہیں ان کا مرکزی کردار رہا ہے۔
پھر قم میں لگاتار دس سال قیام کے بعد تہران واپس آگیا اور وہاں علمی اور سیاسی دو پہلوؤں پر اپنی جان توڑ سرگرمی شروع کردی اور قیام نفت اور شاہ کے خلاف قیام کرنے میں مرحوم آیۃ اللہ سید ابولقاسم کاشانی اور آیۃ اللہ العظمیٰ حاج سید احمد خوانساری اور مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ محمد تقی آملی کے ساتھ مراحل فقہی کے استمرار کے اعتبار سے مرتبط رہا۔اسی طرح تہران کے دس سالہ قیام کے دوران معقول و منقول (فلسفہ،احکام ،منطق،حدیث اور روایات) یونیورسیٹی میں کسی قید اور شرط کے بغیر کلاس میں حاضر ہوتا رہا اور صرف امتحانات میں شرکت کرنے کی وجہ سے حقوق ،علوم تربیتی ،فلسفہ اور فقہ میں بی اے کیا اس کے بعد معارف عالی میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ پھر اسی جگہ حکمت(فلسفہ اسلامی) قرآن اور سنت کی بنیاد پر کتاب آفریدگار اور آفریدہ(خالق اور مخلوق) کے متن سے تدریس میں مشغول ہوگیا، اس کے دوران تہران میں سات مقامات میں شہنشاہی حکومت کے خلاف علمی اور سیاسی دو محور پر نشستیں کی کہ زیادہ تر ان نشستوں میں اسٹوڈنٹس نے شرکت فرمائی ۔منبروں سے مجالس کا بھی سلسلہ جاری رکھا کہ وہ بھی جدید علمی اور سیاسی رنگ کی ہوتی تھیں اور ہمہ وقت شہنشاہی حکومت کی دھمکی ،ان کڑی نظر اور تعاقب کا سامنا ہوتا رہا۔

 

نجف اشرف کا سفر

1341 ھـ ش میں طاغوتی حکومت کے خلاف شدید مقابلہ کے باعث بالخصوص مسجد اعظم قم میں آیۃ اللہ العظمیٰ بروجردی کی برسی کے موقع پر تقریر کی وجہ سے کہ پہلی بار شاہ کے خلاف اس کا پردہ فاش ہوا تھا ۔ساواک کی طرف سے پھانسی کا حکم دیا گیا پھر میں نے خفیہ طور پر حج کے ارادہ سے ایران کو ترک کردیا پھر مکہ اور مدینہ میں طاغوت کے خلاف عربی اور فارسی زبان میں تقریر اور علانات اور پوسٹروں کی وجہ سے عمرہ اور حج کے دوران گرفتار کرلیا گیا ۔میں نے حج حکومتی ماموروں کے حصار میں انجام دیا،لیکن اس نا چیز کے اٹل اور قاطع استدلات کی سعودی حکومت ،بڑے اجتماع اور جم غفیر نیز مسجد الحرام میں عراقی علماء کے دھرنا دینے کی وجہ سے بے بس ہوئی اور مجھے آزاد کردیاگیا۔ اور حفاظت میں عراق پہونچا، پھر نجف اشرف میں علمی قرآنی اور سیاسی تحریک دس سال تک درس تفسیر اور فقہ ،اخلاق ،تقریر اور تالیف کے ذریعہ جاری رکھا ضمنا ایرانی حکومت کی درخواست پر عراقی حکومت نے مجھے ساواک کے حوالہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ،لیکن مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی کے گھر میں مخفی ہوجانے کی وجہ نیز ان کی کارکردگی سے ان کی سازشیں بےکار ہوگیئں۔.

 

بیروت کا سفر

عراق کے سارے شہروں اور نجف اشرف سے ایرانیوں کے نکالے جانے کی وجہ سے میں بیروت ہجرت کرگیا اور وہاں 5 سال تک لبنان میں قرآنی اور سیاسی تحریک کا سلسلہ چلتا رہا.


پورے لبنان میں نماز جمعہ قائم کرنے ، مذھبی نشستوں میں قرآن کے محور پر تقریر کر کہ شاہ کے خلاف اسلامی حکومت تاسیس کی تحریک بھی شامل تھی اس کے علاوہ جدید تالیفات کی وجہ سے اسلام قرآن کی حقانیت کے اثبات کے لئے دیگر ادیان کے علماء سے گفتگو اور بحث و مباحثہ کی بہترین راہ ہموار ہوئی ۔ اس طرح سے کہ لبنان کے مختلف علاقوں میں شیعہ علماء سے قرآنی گفتگو کے ضمن میں سنی ،عیسائی ،یہودی اور درزی علماء سے مباحثہ او مناظرہ کا بہترین موقع ہاتھ آیا اور ملحدین اور مشرکین سے بھی گفتگو کی تو یا وہ لوگ خاموش رہ گئے یا پھر قرآنی دلیلوں کے سامنے لاجواب ہو کر رہ گئے.

 

مکہ کا سفر

لبنان کی داخلی جنگ کے شدید ہونے کی بنا پر اس جگہ کو حجاز کے ارادہ سے ترک کردیا، مکہ اور مدینہ میں پورے دو سال پورے عالم اسلام کی علمی ،سیاسی اور اسلامی شخصیات سے قرآنی اور سیاسی تحریک کی بنیاد پر مستقل رابطہ رہا اس فرصت میں مسلمانوں کے درمیان قرآنی انقلاب کی ترقی کے لئے وسیع پیمانہ پر کام کیا انہوں نے وہاں پر وہابی علماء سے قرآنی مناظرہ کے علاوہ ان کے اور کسی مناظرہ میں شکست نہ کھانے کی صورت میں آل سعود کے مرکز حکومت (مکہ مکرمہ) میں 100 سنی خانوادے کو صرف قرآنی دلیلوں اور کہیں قرآن کی ایک آیت سے استناد کر کے یعنی (سورہ مبارکہ فاطر 32ویں آیت کے سہارے مذھب اہلبیت (ع) کی طرف ہدایت اور رہنمائی فرمائی اور خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ وہ سب شیعہ ہوگئے.


پھر میں دوسری بار 17 سال کے فاصلہ سے دوبارہ گرفتار ہوگیا اور آزادی کے بعد دوبارہ لبنان واپس آگیا ۔ دونوں ہی دفعہ کی گرفتاری میں مکہ مکرمہ کی جیل میں ڈال دیا گیا ۔ بالخصوص دوسری بار میں ، سب سے پہلے مدینہ میں اس کے بعد مکہ میں اور آخر میں جدہ میں موجود «سجن التّرحیلِ» نامی قید خانہ میں قید کردیا گیا۔پہلی گرفتاری میں حرم کے پولیس اسٹیشن میں اور اس کے بعد «شرطۃالعاصمۃ» جو مکہ کی محافظ اور نگہبان ہوتی ہے ۔ دوسری جیل میں ہی تھا کہ امام خمینی (رہ) کے پیریس ہجرت کرنے کی خبر ملی.


دوسری جیل میں دو ہفتہ گذر جانے کے بعد میں بیروت واپس آگیا اور وہاں سے امام خمینی کی ملاقات اور انقلاب کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے میں پیریس چلا گیا ۔ پیریس کے 10 روزہ قیام اور مرحوم امام کے شبانہ روزی جلسوں میں شرکت کے دوران اسی یونیورسیٹی میں قرآنی اور سیاسی دو محور پر ایک طولانی تقریر کی ۔امام کے ایران واپس آنے کے کچھ دنوں بعد بیروت آنے اور 17 سالہ ہجرت کے بعد ۔ اس چار غیبت میں ساواک کے طرف سے پھانسی کا حکم دیا گیا اور مسلسل ساواک کے تحت نظر رہا آخر کار ایران واپس آگیا ۔پھر جمہوری اسلامی کی تاسیس لے بعد کہ جس کی ابتدائی اور بنیادی تحریکوں میں میرا مؤثر رول رہا ہے،میں نے قم میں قیام کیا اور اب تک قرآن کے محور پر میں نے اپنے دروس اپنی تالیفات اور تقریروں کو جاری رکھا ہے۔ اور امام خمینی(رہ)مشورتوں کے نتیجہ اور قرآنی تحریک اور انقلاب کو مضبوط بنانے کی غرض سے میں نے اجرائی کاموں میں شرکت نہیں کی۔ مگر آغاز انقلاب کے چند دنوں کے علاوہ کے امام مرحوم کی کی خواھش اور آرزو نیز خاص لوگوں کے مراجعات کے بنا پر جواب گو بھی ہوا اور قانونی طور پر نماز جمعہ کی تشکیل سے پہلے پورے ایران میں تقریروں کے علاوہ صوبائی مراکز اور دیگر شہروں میں نماز جمعہ بھی قائم کی.

 

مشہد مقدس میں سب سے پہلی نماز جمعہ کا قیام

پہلی نماز جمعہ تھی جو مشہد مقدس کے ملت پرک میں تقریبا 5 لاکھ لوگوں کے مجمع میں قائم ہوئی نماز جمعہ کے منبر کے عنوان سے ٹینک کا اور ہوائی جہاز مارنے والے گن(GUN) کا اسلحہ کے عنوان سے استعمال کیا اور لباس کفن سے مکمل استفادہ کیا. کی اسی پہلی نماز جمعہ میں لوگوں نے کاغذ کا پلند آمادہ کیا جس پر سینکڑوں لوگوں نے دستخط کی اور لوگوں کی اکثریت کے دستخط کرنے سے ناچیز کو قانونی طور پر مشہد مقدس کا امام جمعہ مقرر کر لیا گیا.

اس کے بعد اسی طومار کو امام کے آفس میں ارسال کردیا گیا لیکن ان کے ہاتھ میں نہیں پہونچا ۔ اس کے علاوہ دائمی طور پر مسجد مقدس جمکران اور صنعتی شریف یونیورسیٹی اور دانشگاہ تہران میں بھی چند جمعہ قائم کی ، اس کے بعد مرحوم امام نے مرحوم حجۃ الاسلام والمسلمین طالقانی کو امام جمعہ تہران کے عنوان سے معین کر دیا ۔ لیکن حوزہ کے کچھ خشک مقدسوں اور شدت پسندوں کی بیشمار اذیتوں اور دوسروں کی کذب بیانیوں اور افتراٰ پردازیوں کی وجہ سے میں نے اپنے تمام اوقات درس و تدریس و تالیف و تصنیف میں صرف کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو تدریس کے ضمن میں قم کے 10 سالہ قیام کے دوران «الفرقان» نامی 25 جلد تفسیر لکھی.

مجھے یاد ہے کہ مرھوم آیۃ اللہ طباطبائی نے مجھ سے فرمایا کہ جب تک یہ تفسیر تمام نہ ہوجائے اس وقت تک کوئی دوسری کتاب نہ لکھنا تو ایسا ہی ہوا ، بالاخر تفسیری ، فلسفی ،فقہی و۔۔۔۔۔۔ 113 سے زیادہ تحقیقی قرآنی کتاب لکھیں کہ ان میں سے اکثر زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہیں یا زیراکس ہو چکی ہیں اور خطی کتاب بھی تالیف کی ہیں.

عصر حاضر کے بعض اکابر علمائے اسلام نے ناچیز کی تالیفات کے بارے میں کچھ نکتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ، ان میں سے آیۃ اللہ العضمیٰ حکیم فرماتے تھے تم نے انقلابی تحریک میں حد درجہ مشغولیت کے باوجود اتنی کم مدت میں ایسی ایسی بکثرت کتابیں تالیف کردی ہیں کے نجف کے سابقہ رکھنے والے مولفین تعداد اور مطالب کی سنگینی کے لحاظ سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ نیز مرحوم امام (رہ) اور مرحوم خوئی (رہ) کتاب «المقارنات» کے بارے میں نجف میں فرمایا:یہ اتنی عمدہ کتاب ہے جو یہود و نصاریٰ کے خلاف ان کی رد میں لکھی گئی ہے ، بالاخر گوناگوں مولفین کی تائید اور تص دیق کی بنا پر مراجع عظیم الشان کی جانب سے تمام علوم اسلامی میں نا چیز کو اجتہاد کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز ہونے کی تائید کی گئی ہے ۔اس کے باوجود کے تفسیری تحقیقات کے مرحلے تمام ہونے کے بعد ان بزرگوں کے مبنی کے مطابق ناچیز کے فقہی ، فلسفی ،عقیدتی ، عرفانی اور سیاسی نظریات کی تمام علماء کی طرف سے بکثرت مخالفت کی گئی ہے.

.

خاص کر تفسیر قرآن کے بارے میں
قرآن کی بہت کم ایسی آیت ملے گی جس میں آیہ مبارکہ کی نسبت شیعہ اور سنی تفسیروں کے درمیان غفلت اور لغزش سے دوچار نکتوں کی طرف اشارہ نہ کیا ہو ۔ اور فقہ میں بہت سارے شیعہ اور سنی علماء کے نظریات اور کبھی کبھی دونوں ہی کے کچھ نظریات سے میرا اختلاف نہ ہو کہ ہم نے « تبصره الفقهاء» میں قرآن اور سنت کی روشنی میں 500 سو سے زیادہ فتوے اور نظر مشہور کے مخالف فتوے ذکر کئے ہیں ۔ اس اختلاف کا سر چشمہ تمام اسلامی علوم میں ،آزاد اندیشی اور قرآن مبین میں پیش فرض کے بغیر تدبر ہے ۔ جبکہ علمائے اسلام قرآن کی صحیح تحقیق کریں تو فیصد کے لحاظ آپس میں اختلافات بہت کم ہوجائے گا اگر چہ ان کے اس طرح کے فتوے اجماع اور روایات کے مخالف ہی کیوں نہ ہوں..
بالخصوص فلسفہ کے بارے میں
قدمت زمانی جہان اور اس کے ذاتی حدوث جیسے حوزہ میں رائج فلسفہ اولیہ کے ارکان ، سنخیت خدا اور خالقین اور معلول کی ضرورت سنخیت کی بنیاد پر قاعدہ«الواحد لا یَصدُرُ منہ الا الواحد» کو صحیح عقلی اور قرآنی فہم اور استنتاج کے خلاف جانا ہے اور فطرتاً بہت سارے فلسفی نظریات کو قبول نہیں کرتا ۔ انسانی منطق میں چند اعتراضات کے علاوہ 66 تضاد «اللّه» کے ابجدی حساب کے مطابق منطقیوں کے نظریات کے درمیان موجود ہے کہ میں نے تفسیر «الفرقان» کے سورہ اعراف (جلد 10 صفحہ 37 سے 48) کے حاشیہ میں نوٹ کیا ہے..
بالخصوص علم اصول کے بارے میں

آخر کار علم اصول کے بارے میں مباحث الفاظ میں بحث تحقیق کو غلط سمجھتا ہوں ۔جیسا کے کوئی بھی سائنس داں لفظی بدیہات میں بحث نہیں کرتا ۔ اقتتاب و سنت سے عملی اصول سے بھی ظاہر ہے اور کتاب « اصول الاستنباط» میں ہم نے ان کے متعلق مباحث ذکر کئے ہیں.

ہمارا علماء سے اختلاف دیگر تمام علوم سے زیادہ فقہی مسائل میں ہے اور ان سب کی بنیاد قرآن ہے ، تفسیر « الفرقان» کی 30 جلد میں ان تمام موارد میں تفصیلی گفتگو آئی ہے ۔اور تفسیر کے علاوہ فقہی اعتبار سے بھی عربی زبان میں « تبصرة الفقهاء»، « اصول الاستنباط»، «تبصرة الوسیلۃ»، « على شاطى ء الجمعۃ» و۔۔۔۔۔ « رسالہ ى توضیح المسائل نوین»، « فقہ گویا»، « اسرار، مناسک و ادلّہ ى حج»، « مفت خواران» و۔۔۔۔ کتابوں میں فقہی قرآنی اہم بحث کو ذکر کیا ہے یہ سارے اختلافات دلالت قرآنی کی اصالت کی بنیاد پر ہے کہ علماء نے «ظنّىّ الدّلالۃ» سمجھا ہے جبکہ فصاحت و بلاغت میں اپنی معراج کو پہونچا ہوا ہے.

قرآن کا یہ ادنا خدمتگذار اسلام سے منسوب سارے علوم علوم (جیسےآخری صدی کے نصف کے اکابر علماءکی خدمت سے اخذ کیا ہے)ابتدا میں قرآن کا حاشیہ لکھا پھر آہستہ آہستہ این علوم کے قرآن سے وسیع اختلاف کی تحقیق کی ہے«اکثر وبیشتر ایسا ہوا ہے کہ میں نے اکابر علماء سے گفتگو کی ہے لیکن ایک بار بھی شکست نہیں کھائی ہے» عان طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ قرآنی علوم اور معارف حوزہ میں چنداں حقیقت نہیں رکھتے اور میرا خیال ہے کہ مرحوم امام کے سیاسی انقلاب سے زیادہ اہم تمام علمی اور سیاسی و۔۔۔ جہتوں میں قرآنی انقلاب متحقق ہونا چاہئیے تھا.

مورد قبول ادلہ

ناچیز نے اسلامی دلیلوں کو بالخصوص قرآن و سنت کو جانا ہے ، لیکن عقل اور اجماع کو قرآن کے مقابلہ میں مستقل دلیل کے طور پر نہیں بلکہ صرف کاشف از شرع کے عنوان سے قبول کرتا ہوں ۔ یعنی عقل مطلق یا سلیم کلیات میں کاشف کے عنوان سے حکم الہیٰ کی شناخت کا وسیلہ ہو سکتا ہے۔ مثلاً قرآن کا ارشاد ہے: «و لاتقل لهما اُف» اس کے بعد عقل مطلق اولویت قطعیہ قیاس کے مطابق نتیجہ نکالتی ہے کہ : «لاتضربهما». اور اجماع اور شہرت بھی قرآن کی مخالفت نہ کرنے یا اجماع سے تعارض نہ کرنے یا کسی دوسری شہرت سے تعارض نہ کرنے کی صورت میں بشرطیکہ امامیہ نے ان کو نقل کیا ہو ، مقبول ہے کیونکہ کاشف از سنت شمار ہوتا ہے.
آخر کار تمام دینی میدانوں میں اصلی اور بنیادی محور «قرآن» ہے کیونکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے: «وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَ‌بِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا»: «تلاوت کرو اور اپنے رب کی کتاب کی تلاوت کرو(قرآن) جو تمہارے طرف وہی ہوئی ہے ہرگز اس کے لئے کوئی تبدیل کرنے والا نہیں ہے۔ اور قرآن کے سوا کوئی (رسالتی و حیاتی)پناھگاہ کو تم نہیں پا سکتے» (کہف 27).
بنابر این آیۃ مبارکہ مسلمین بھی پیغمبر اسلام کی بدولت وحی خداوندی کی پیروی میں قرآن کے علاوہ کوئی مرجع اور پناھگاہ نہیں پائیں گے پس ہر متواتر حدیث ہو یا غیر متواتر نص یا ظاہر مستقر قرآن کی مخالفت کی صورت مردود ہے ، لیکن جس حدیث کو اکثر امامیہ نے نقل کیا ہےاور کوئی معارض بھی نہ ہو اور قرآن بھی نفی یا اثبات میں اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں رکھتا ۔ اور «اطیعواالرّسول و أولى الأمر منکم» کے باب سے قبول کیا ہے۔ اور اسی طرح کی احادیث بھی حروف مقطعہ سے ماخوذ ہے اور آیات قرآن کا ایک رمز ہے ، کہ سورہ کہف کی 27 ویں آیت سارے احکام کا سرچشمہ صرف اور صرف قرآن کو جانتی ہے اور بس ، سنت کا نتیجہ قرآن کے رموز سے ماخوذ ہے اور وہ حقایق یا تاویل کے مرحلہ میں قرآنی وحی ہے لہذا سنت کی صورت قرآن کے مقابلہ میں نہیں ہے تا کہ اس کے لئے ناسخ بن سکے ۔اور مستقر قرآن کے نص یا ظاہر ، اس کے مستقر ظاہراور نص کے ساتھ نسخ نہیں ہوتے.
قرآن کی نظر میں ضمنی طور پر دلیل ظنی بھی مردود ہے کہ آیت « وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ »: (جس کی نسبت نہیں جانتے اس کا اتباع نہ کرو) نیز کبھی اصول دین کی خصوصیت بھی نہیں ہے کیونکہ یہ بدون علم ممنوعیت احکام فرعی کے بعد آئی ہے ،بنابر این ظن و گمان کا احکام الہی میں کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ : «انّ الظّنّ لایغنى من الحق شیئا»؛ اگر حوادث کی بنا پر اسلامی کتابیں نابود ہوگئیں ہیں لیکن حجت بالغہ کے بیان میں علم و قدرت الہیٰ نابود نہیں ہوا ہے۔ علم رجال کا کردار بھی اکثر و بیشتر موضوعات میں ہے۔کیونکہ احادیث جعل کرنے والوں نے اسناد بھی جعل کی ہیں جس کا نتیجہ ہوا کہ قرآن پائیدار اور مستحکم ظاہر یا نص کے خلاف السند صحیح احادیث حوالے کی ہیں۔چنانچہ کتاب «غَوصٌ فى البِحار» تقریباً شیعہ اور سنی 180 حدیثی کتابوں کی کتاب اور سنت کی بنیاد پر میں نے رد کی ہے.
البتہ کچھ قرآنی محققین نے ناچیز کی بعض نظری مباحث میںاجمال گوئی اور اختصار بیانی کو اصول قرآنی کی دلیلوں کے درمیان شبہ تعارض کے ایجاد کا سبب جانا ہے ۔ اس بات کی یاد آوری ضروری ہے کہ اگر چہ مذکورہ بات صحیح ہے لیکن کم از کم عمل میں خود ناچیز کے لئے فقہی مختلف ابواب میں فتووں میں نقص مسبب نہیں ہوا ہے۔ بنابر این الہام دور کرنے کے لئے واضح لفظوں میں عرض کیا جاتا ہے کہ:
«ضرورت اجماع ،شہرت اور ہر روایت کہ قرآن کے مخالف ہو ،مردود ہے ، رہا اجماع ،شہرت اور جو روایت بھی قرآن کی مخالف نہ ہو۔جبکہ کوئی معارض نہ ہو اور علمائے امامیہ کے طریق سے ہم تک کے طریق سے ہم تک پہونچا ہو آیۃ«قل فللّہالحجۃالبالغۃ» کے مطابق مقبول ہے کیونکہ اگر شارع مقدس اس کا مخالف ہوتا تو یقیناً مکلفین کے لئے حجت رسا اس کے خلاف میں ارسال فرماتا ۔ اور دو روایت میں بھی منقول مرضحات عمر بن حنظلہ کی مقبولہ میں مقبول ہے».
فوق الذکر نکات احکام الہیٰ حاصل کرنے کے طریقہ میں قطعی نظر ہے اور اگر اسلامی فرقوں میں ایسے فقہی نظریات موجود ہیں جو عقل سلیم ،حس،عدل اور علم کے مخالف ہوں تو یقیناً ان کی بنیاد قرآنی نہیں ہے۔ ہاں ممکن ہے کہ جس اسلام کو ہم نے قطعی عقلی دلیل کی بنیاد پر قبول کیا ہو ، وہ اسی پہلے مبنی کی مخالفت کریں؟!
قرآنی دلیلوں کی بنیاد پر ان کے نظریاتی اختلاف

مثال کے طور امام جعفر صادق(ع) کے ابوحنیفہ سے مناظرہ کی لوگوں نے روایت جعل کرلی ہے کہ بالغرض حضرت نے باظل قیاس کی نہی کے ضمن میں (قیاس تمثیل) قیاس اولویت قطعیہ کی رد میں پیش قدمی اور پہل کی ہے ! مثلاً راوی سے فرمایا ہوگا:اگر عورت کی ایک انگلی کاٹ دی جائے تو اس کا دیہ مرد کا کامل ایک درہم ہے(100مثقال سونا)عورت کی دو انگلی کٹ جانے پر دو درہم اور تین انگلی پر تین درہم لیکن چار انگلی کاٹنے پر دو انگلی کے دیہ کے برابر دیہ ہے!


جبکہ پہلی بات تو یہ ہے کہ قیاس اولویت قطعیہ مکمل درست ہے نیز کتاب و سنت اور تمام عقلاء کی عقل کے مطابق بھی ہے ، دوسرے کیا یاقین کیا جاسکتا ہے کہ حساب اور اہمیت کے لحاظ سے چار کی عدد 3 سے کم اور 2 کے برابر ہے!؟قرآن بھی مرد و عورت کے دیہ کے درمیان فرق بیان کرنے کے بعد «وَالجروحَ قصاص» کے ذریعہ عورتوں کے اعضا کا دیہ ان کے کامل دیہ کے مطابق اور اسی طرح مردوں کے اعضا کا دیہ بھی ان کے کامل دیہ کے مطابق معین فرمایا ہے، نیز عورتوں کی شوہروں کے ذریعہ ملنے والی میراث کے باب میں اکثر شیعہ فقہا کے متفقہ فتوے کے مطابق عورتوں کو غیر منقولہ اموال میں سے رہائشی مکان پر عمارت کے علاوہ ہر چیز سے محروم رکھا ہے ۔ جبکہ قرآنی نصوص کے مطابق ہر گز ایسی محرومیت نہیں پائی جاتی کیونکہ سورہ نساء کی 11ویں اور 12ویں نے "مورِّث" کے ترکہ سے صرف وصیت اور دین کو الگ کیا ہے ۔ اور مرد اور عورت کی میراث کے لےئے یہ حکم بار بار بیان فرمایا ہے کہ: «مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُ‌ونَ أَيُّهُمْ أَقْرَ‌بُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِ‌يضَةً مِّنَ اللَّـهِ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا»،«مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّ‌بُعُ مِمَّا تَرَ‌كْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَ‌كْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِن كَانَ رَ‌جُلٌ يُورَ‌ثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَ‌أَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ فَإِن كَانُوا أَكْثَرَ‌ مِن ذَٰلِكَ فَهُمْ شُرَ‌كَاءُ فِي الثُّلُثِ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَىٰ بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ‌ مُضَارٍّ‌ وَصِيَّةً مِّنَ اللَّـهِ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ» بار بار مردوں کی طرح عورتوں کے لئے صرف وصیت اور دین کو الگ بیان کیا گیا ہے۔اور بس.


اسلامی روایات بھی اس سلسلہ میں مختلف ہیں ، ہمارے فقہا کی اکثریت نے صرف ان روایات پر تکیہ کیا ہے جو قرآن کے مخالف ہیں ۔ نیز موجود برہان و دلیل بھی تمام عقلی اور شرعی معیاروں کے خلاف ہے ۔ مثال کے طور پر فوق الذکر محرومیت کے لئے کچھ روایات میں اس طرح استدلال پیش کیا ہے: «چونکہ عورت مرد کے حقیقی نسب میں داخل نہیں ہوئی ہے لہذااصل میراث سے وہ میراث نہیں پائے گی!» جبکہ اس کے بر عکس بھی اس طرح ہیں ۔ یعنی مرد بھی عورت کے حقیقی نسب میں شامل نہیں ہے لہذا اس (عورت) کی طرح یہ بھی میراث نہیں پائے گا!


اور کچھ دیگر روایات میں اس طرح ذکر ہوا ہے: «چونکہ بیوہ عورت ممکن ہے شادی کر لے اور اس کے بعد پہلے شوہر ے گھر سے دوسرے شوہر کے گھر میراث لے جائے اور دوسروں کا حق غصب کر لے اس بنا پر خود گھر سے محروم ہے!»جبکہ مرد بیوی کے مرنے کے بعد دوسری شادی میں بیوہ عورت سے زیادہ سرگرم نہیں ہے؟اور غصب کرنے میں عورت سے کہیں زیادہ قوی اور مظبوط ہے؟اور جب شوہر نہ کرے تب بھی وہ میراث کے حصہ سے محروم کیوں ہے؟پس اس روایت کی بنیاد پر اگر عورت ان دونوں احتمال کی صورت میں اصلی حصوں (میراث) سے محروم ہو تو مرد کو بدرجہ اولیٰ محروم ہونا چاہئیے۔
یا «عاقلہ» کے واقعہ میں کہ فتووں کی بنیاد پر اگر کوئی بالغ شخص کسی کو عمداً قتل کر ڈالے تو مقتول خون بہا قاتل کے چچاؤں اور ماموں کے ذمہ ہے اگر چہ یہ لوگ (چچا اور ماموں) نوجوان اور فقیرہوں اور وہ شخص عمر دراز اور مالدار ہو ۔یہ فتویٰ بھی 100٪ عقل کے مخالف اور آیات قرآنی نصوص کے خلاف ہے.


نیز نماز اور روزہ کے قصر ہونے اور روزہ نہ رکھنے کے سلسلہ میں وہی گذشتہ 8فرسخ کا سفر مشہور فتوی کی بنیاد ہے جبکہ کم سے کم «مسیرةُ یومٍ» (ایک دن کی مسافت) معیار ہے یعنی ایک دن کی مسافت موجود آنے جانے کے اسباب کے ذریعہ سفر کہ ہزار کیلومیٹر سے بہت زیادہ ہے۔اور اس وقت یہ بھی معیار نہیں ہے،بلکہ آیہ قصر کے مطابق کہ ارشاد ہوتا ہے: «إن خفتم أن یفتنکم الّذین کفروا» صرف اور صرف جان اور مال وغیرہ کے خوف کے ساتھ صرف کیفیت نماز میں کمی آئے گی کہ اس وقت سفر میں نماز قصر نہیں ہوگی اور روزہ بھی نہیں توڑا جائے گا(یعنی نماز قصر ہے اور نہ روزہ).


روزہ دار کے ماہ رمضان کی صبح میں داخل ہونے کے لئے جنابت سے طہارت کا لازمی ہونا مشہور فتوی کے بارے میں ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ملاحظہ کرتے ہیں کہ قرآنی نص کے مطابق ہر گز ایسی کوئی قید نہیں ہے،کیونکہ «فالآن باشروهنّ..و کلوا و اشربوا حتّى یتبیّن لکم الخیط الابیض من الخیط الاسود من الفجر» عورتوں سے مجامعت اور ہمبستری کرنے کو کھانے پینے کی طرح طلوع فجر سے کچھ پہلے تک جائز جانا گیا ہے کہ پھر غسل جنابت کے لئے وقت ہی نہیں رہ جاتا شیعہ اور سنی روایات قرآنی نص کے مطابق ہیں۔ صرف چند شیعہ روایات ہیں جو آپس میں تناقص رکھتی ہیں جو طلوع فجر سے پہلے کی طہارت یا واجب یا روزہ رکھنے کی شرط جانتی ہیں.

.

حوزہ ھائے علمیہ کے رائج علوم

میں نے اکابر علماء سے حوزہ کے رائج علوم بالخصوص فقہ کے بارے میں گفتگو منجملہ آیۃ اللہ العظمیٰ حاج سید احمد خوانساری (رہ) ایسے زنا کار سے شادی کرنے کے سلسلہ میں جس نے توبہ نہیں کی ہے اور نہ ہی کرے گا تو انہوں نے فرمایا:احتیاط واجب کی بنا پر اس سے (خواہ موقت ہی ہو)ازدواج نہیں کرنا چاہئیے کیونکہ عورت کے مانع ہونے کے بغیر ازدواج کی ایک شرط ہے اور زنا کار کی بات بھی قبول نہیں ہے اور زنا کار کی بات بھی قابل قبول نہیں ہے ،مں نے کہا:پھر تو اس سے شادی کرنے کی حرمت اقویٰ ہے نہ احتیاط واجب کی بنا پر اس وقت«حرّم ذلک على المؤمنین» اس کی تحریم کی ہے اور اگر اس سلسلہ میں روایات بھی مختلف ہوں تو صرف وہ مقبول ہے جو نص آیت کی موافق ہیں؟انہوں نے فرمایا :شاید ائمہ کی نظر میں کوئی آیت رہی ہوگی جس نے اس حرمت کو نسخ کیا ہو ،میں نے کہا:اولاً قرآن کئ ناسخ اور منسوخ معلوم ہے، دوسرے سورہ مائدہ کی پانچویں آیت کی آخری سورہ نازل ہوا ہے، نص «والمحصنات من المؤمنات و...» عورتوں کی پاکدامنی کو ان سے ازدواج کرنے کی اصلی شرط جانا ہے یا یہ آیت ان کی عفت کے بارے میں اہم ترین شرط رکھتی ہے یا کم از کم «حرّم ذلک على المؤمنین» سے کوئی سر و کار نہیں رکھتی ہے اس بنا پر ھب تک کسی عورت سے زنا ثابت نہ ہو اس کے لئے عفت کا حکم جاری ہے یہاں پر انہیں آیت تحریم کی نص کی وجہ سے زانی اور بدکار سے شادی کرنے کی حرمت پر قطعی فتوی دیا.


اس طرح آیت اللہ العظمیٰ گلپائگانی سے اس سلسلہ میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے فرمایا: «عروه» کے خطی حاشیہ پر میں نے احتیاط واجب کی شرط لگائی ہے لیکن ہم نے تحقیق کی تو دیکھا کہ آپ کا فتویٰ احتیاط مستحب ہے؛ میں نے کہا:آیۃ تحریم کی نص سے یہ احتیاطات بے جا ہیں اور قرآنی دو نص کے مطابق یہ ازدواج (یعنی پاکدامن عورت کی زانی سے)حرام ہے.


آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی(رہ) بھی فرماتے تھے: «لاینکحُ» خبر ہے نہ انشاء پس حرمت نہیں ہے تو میں نے ان سے کہا اگر خبر ہے تو قطعاً دروغ اور جہوٹ ہے، کیونکہ زنا کار عورت سے شادی کرنے کے لئے راضی نہیں ہوتا اور زنا کار اور بد کار عورت بھی کبھی زانی مرد سے شادی کرنے کی کوشش نہیں کرتی، پس«لاینکحُ» خبر کے پیرائے میں انشاء ہےاور «حرّم» اور«ذلک» مذکر ہیں اور ان دونوں کا مرجع اور مشارالیہ صرف«نکاح» ہے نہ «زنا» کہ لفظی اعتبار سے مونث مجازی ہے۔اور اگر بالغرض محال«ذلک» کا مرجع زنا ہوتا !تو ہم سوال کرتے زنا کیا صرف مومنین پر ھرام ہے؟! نہ کافروں اور منافقوں اور فاسقوں پر؟!بنابر ایں «حرّم ذلک على المؤمنین» حرمت پر نص ہے!تو انہوں نے فرمایا :اس «حُرِّمَ» سے غفلت ہوئی ہے اور پہلی دلیل بھی درست ہے.
«رِضاع» کے مشہور مسئلہ کے باب میں یعنی شیرخوارگی عام طور سے اکثر فقہا کا فتویٰ یہ ہے کہ اگر کسی بچے نے تمہاری عورت کا دودھ پیا تو وہ تمہارا رضاعی بیٹا ہے لہذا اگر وہ شادی کرلے اور اس کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دیدے یا لڑکا ہی مرجائے تو اس عورت(رضائی بیٹے کی بیوی) سے تمہارے لئے نکاح حرام ہے!!

اس سلسلہ میں امام خمینی(رہ) سے نجف اشرف میں گفتگو ہوئی تو وہ مشہور فتوے کو قبول فرماتے تھے!! میں نے کہا:پہلی بات تو یہ ہے کہ رضاعی بیٹا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا،کیونکہ حرمت رضاعی صرف ازدواج کے حدود میں ہے ۔کیا رضاعی پدر و پسر کے درمیان بھی ازدواج ممکن ہے؟کہ پسر رضاعی حرمت رکھتا ہو!!اس وقت «و حلائل ابنائکم الّذین من اصلابکم» مخصوصاً عورت کے سبلی اور اصلی بیٹوں سے ازدواج کی حرمت ہے نتیجہ کے طور پر ایسے لڑکے اور «ادعیاء» (منہ بولے بیٹے،پوس پالک)اس حکم سے خارج ہو جائیں اگر بالفرض محال کوئی رضاعی بیٹا ہو تو بھی ان کی عورتوں سے شادی کرنا حرام نہیں ہے؛ انہوں نے مختصر جملے کہنے کے بعد فرمایا: مشہور کا فتویٰ محترم اور قابل قبول ہے باوجودیکہ آیت کے برخلاف ہے اور کوئی ایسی روایت بھی نہیں ہے جو اس کی تائید کرے!! بالاخر ہم لوگ اجماع اور شہرت میں گرفتار ہیں ۔ میں نے کہا لیکن کلی طور پر نص قرآن کے مطابق اور دوسروں کے فتووں کے بر خلاف شیر خوارگی کی حرمت رضاعی ماں اور بہنوں میں منحصر ہے.


پیغمبر(ص) اور ائمہ طاہرین (ع) کی سنت کلی بطور مطلق اطاعت واجب ہونے کے سلسلہ میں مرحوم آیۃاللہ العظمیٰ خوئی(رہ) سے میں نے گفگو کی کہ کتاب کے اشارہ اور سنت کی تصریح کی وجہ سے غسل جمعہ قطعی طور پر واجب ہے تو پھر اس حکم میں فقہا کا اجماع اور شہرت اس کے استحباب پر کیوں ہے!؟ہم لوگ اجماع اور شہرت میں گرفتار ہیں!ہم نے کہا:یہ گرفتاری کتاب اور سنت کے بر خلاف ہے۔


«الزّیتون و الرمّان» کی زکوۃ کے باب میں کہ سورہ انعام کی 141ویں آیت مین اموال زکویہ سے متعلق ذکر ہوا ہے«آتوا حقّه یوم حصاده» کی وجہ سے، بھی آیۃ اللہ خوئی سے میں نے ذکر کیا کہ اس بنا پر زکوۃ9سے زیادہ پر واجب ہوجائے گی، انہوں نے فرمایا:یہ آیت مکی ہے اور زکوۃ کا حکم مدنی ہے۔ میں نے کہا:زکات کے بارے میں 30 مکی اور مدنی آیتوں میں سے 16 آیت مکی ہے،انہوں نے فرمایا یہ فقہ جدید ہے!میں نے کہا:یہ فقہ قرآن ہے اور آپکی فقہ سے بہت قدیم ہے۔.


مرحوم آیۃاللہ میرزا مھدی آشتیانی سے آیت«ان من شى ءٍ الاّ یسبّح بحمده» کے بارے میں گفتگو ہوئی تو انہوں نے فرمایا:یہ تسبیح تکوینی ہے یعنی اشیا کے بارے میں صحیح غور وخوض ہمیں خداوند سبحان کے وجود تک پہونچاتا ہے، میں نے کہا:تسبیح تکوینی تمام مکلفین کے لئے قابل فہم رہی ہے اور اس کا حکم بھی ہوا ہے جیسے«قل انظروا ماذا فى السّماوات والارض» اسی طرح دیگر آیات میں جیسے «افلم ینظروا فى ملکوت السّماوات والارض» زمین و آسمان کی وجودی حقیقت کے بارے میں غور و خوض نہ کرنا( کہ ذاتی طور پر محتاج مطلق اور فقر محض ہیں) کی مذمت کی گئی ہے اس بنا پر آیۃ«ان من شى ءٍ الاّ یسبّح بحمده» صرف تسبیح تکوینی نہیں ہے کیونکہ خداوند عولم آیت کے تسلسل میں فرماتا ہے: «ولکن لا تفقهون تسبیحهم»(لیکن تم لوگ ان کی تسبیح کو سمھج نہیں پائے)یہ آپ کا جواب ہے ورنہ خداوند متعال مکلفین پر کبھی کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دیتا کہ «لاتفقهون» نہیں سمھجتے، اس کا پیغام ہوگا۔ پس آیت کے معنی میں غور و خاض کرنے سے ہم اس نکتہ تک پہونچیں گے کہ ساری چیزوں(خواہ جمادات ہوں یا نباتات یا حیوانات) تسبیح تکوینی کے علاوہ اس میں سے ہر ایک اپنی اپنی مخصوص زبان میں علم و اگہی اور اختیار کے ساتھ خداوند سبحان کی تسبیح میں مشغول ہے لیکن ہم ان کی تسبیح کرنے کے طریقہ کو نہیں سمھجتے۔ اس عظیم المرتبت فلسفی نے آخر کار ہمارے نظریہ کو قبول فرمالیا.


روح کے تجرد اور عدم تجرد کے بارے مین آیۃ اللہ العظمیٰ حاج سید ابولحسن رفیقی قزوینی مرحوم سے گفتگو ہوئی تو میں نے ان سے کہا: تجرد کے خدا سے منحصر ہونے کی تمام دلیلوں کے علاوہ «قل الرّوح من امر ربّى» روح کے تجرد کے لئے اس طرح سے تمسک کیا ہے، کہ روح عال الامر سے ہے اور امر بھی مجردات کی ایجاد ہے!!با وجودیکہ (امر) لغت میں صرف حکم، فرمان، کام اور چیز کے معنی میں ہے اور آیت «اَلاله الخلق والأمر» بھی خلقت اور عرش کے بعد آئی ہے کہ آفرینش اور تدبیر کے معنی میں ہے، پس «الخلق» کل آفرینش و«الامر» تمام مخلوقات سارے امور کی تدبیر ہے ، چناچہ«کل شى ءٍ خلقناه بقدر» خلق اور آفرینش کو ساری چیزوں سے مربوط جانا ہے۔ پس مادیات کے خلق سے مخصوص نہیں ہے پھر کچھ گفتگو ہوجانے کے بعد انہوں نے فرمایا:ہاں اس طرح کا قرآن سے استدلال تعدی، ظلم اور تفسیر بالرائ ہے، اگر یہ لوگ اپنی طرف سے جن دلیلوں نے ان تجرد روح کے عقیدہ کے بارے میں قانع کردیا ہے پھر اس عقیدہ کو قرآن پر کیوں زبردستی تھونپتے ہیں!!


آخر کار اگر ان مباحثوں اور مناظروں سے صرف نظر کر بھی لیں، اگر اسلامی علوم کا اصلی محور و مرکز قرآن ہو! تو بہت سارے حوزوی نظریات مخدوش ہیں۔علوم اسلامی پر یہ ایک بہت بڑا اعتراض ہے۔ یا اس کی قرآنی بنیاد نہیں ہے یا قرآن مخالف ہے اور دوسرا اعتراض ہے۔ یا اس کی قرآنی بنیاد نہیں ہے یا قرآن مخالف ہے اور دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر کبھی اکثر حوزوی محفلوں، بزموں، نشستوں میں دقیق تحقیق کے ساتھ قرآن و سنت کی دلیلوں کے مطابق صحیح نظریہ پیش کیا جائے تو کیونکہ مشہور کے خلاف ہے لہذا شائع شدہ کتابوں میں یا رسالہ علمیہ میں فتوی اعلان کرتے وقت تو اس کا ایک اپنا چہرہ ہوگا منجملہ مرحوم آیۃاللہ مرعشی نجفی سے دخانیات کہ سلسلہ میں بحث ہوئی کہ دخانیات روزہ کو باطل کرتی ہیں کے نہیں ؟ تو انہوں نے خصوصی جلسہ میں فرمایا:موفق حدیث کے مطابق دھواں مبطل روزہ نہیں ہے۔ میں نے کہا: سب سے پہلے تو قرآن کی رو سے کھانے، پینے اور جماع کرنے کو مبطل روزہ جانتے ہیں اس کے بعد روایت کی وجہ سے؛(البتہ قرآن کی بنیاد پر دخانیات کا استعمال حرام ہے لیکن روزہ کو باطل نہیں کرتا) اس کے بعد میں نے کہا:کیا آپ نے اپنے رسالہ میں بھی ایسا کچھ لکھا ہے؟ فرمایا:لوگوں کا خیال کرتے ہوئے نہیں بلکہ رسالہ میں اسے بھی میں نے مبطلات روزہ میں شمار کیا ہے!


جو کچھ میں تحریر فرمایا ہے وہ بہت ہی کم مصنف کی دائمی تلاش و کوشش کا نچوڑ ہے جو عالمی سطح پر قرآنی انقلاب کے محرک اور بانی نیز اسے وسعت بخشنے والے ہیں۔ البتہ ان یادوں اور سوانح حیات کی تفصیل 80 صفحہ پر مشتمل ایک انٹرویو میں بطور تفصیل موجود ہے کہ ابھی ترتیب دیا جارہا ہے انشاء اللہ منظر عام پر آئے گا.

قم ـ محمّد صادقى تهرانى
5/ جون/ 1994
 
خادم القرآن کی خدمت میں آیت اللہ العظمی ڈاکٹر محمد صادق تہرانی کی یادیں اور ان کے تاملات
لوڈ ہو رہا ہے ... براہ کرم انتظار کریں
loading...

علوم قرآن کا خبرنامہ

سب سے آخر خبر دریافت کرنا اور سائٹ کو آپ ڈیٹ کرنا

جامعة علوم القرآن

فرقان شفاسنتر

ارتباطی طریقے

  • دفتر قم کا پتہ :
    ایران - قم - بلوار محمد امین (ص) بین کوچه 11 و 13
  • رابطہ نمبر: 
    02532930344
    09127553030
    09124553030
  • ایمیل آڈرس: 
    This e-mail address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.