مسئلہ نمبر 399ـ چاند دیکھنے سے یا پھر ان لوگوں کے قول سے اطمینان حاصل ہو جائے جنھوں نے چاند دیکھنے کا دعوی کیا ہے،یا عادل حاکم شرع کا حکم ہو، یا پھر شعبان کے 30 دن گذر گئے ہوں تویہی سارے طریقہ مہینہ کی پہلی تاریخ پر گواہ ہیں اور چاند کا دیکھنا انھیں آنکھوں میں منحصر نہیں ہے بلکہ دوربین اور نجومی محاسبات بھی یہی حکم رکھتے ہیں ۔ کیونکہ "رمضان"قرآن میں آغاز و انجام پر مکمل آگاہی کی صورت میں ہے کہ جس راہ سے بھی ہو صحیح ہے۔اور حدیث "صم للرؤیۃ واافطر للرؤیۃ" نے بھی رؤیت کو کسی خاص وسیلہ میں منحصر نہیں جانا ہے ،بلکہ اگر تم نے خود دیکھا یا دیکھائی دیا جس طرح بھی ہو اور کسی ذریعہ سے ہو جس کے ذریعہ ماہ کا چاند دیکھا جاسکتا ہو یا جانا جاسکتا ہو تو کافی ہے،اور جمع میں جانے کے بعد کہ آج مہینہ کی پہلی تاریخ ہے،روزہ بھی واجب ہوجاتا ہے ۔خواہ دوربین سے ہو یا عادی آنکھوں سے یا دوربین کے ذریعہ یا ژئوفيزيك کے ماہرین کے کہنے پر عمل کیا جائے ۔جب افق پر موانع نہ ہونے کی بنا پر رویت کا امکان ہو۔
لہذا دوربین جو چاند دیکھنے کا بہترین ذریعہ ہے وہ اول ماہ کے اثبات میں سب کے لئے راہ کو آسان بنا دے گا ۔اور افق دیدار میں سارے اختلافات کو کالعدم کردے گا کہ اگر یہ مسئلہ مورد توجہ اور عمل واقع ہو تو پھر ہر سال ایک افق میں چند عید اور نماز عید کا مشاھدہ نہیں کریں گے۔
مسئلہ نمبر 400ـ چاند دیکھنے کا معیار وہی افق ہے جس میں آپ زندگی گذار رہے ہیں اور دیگر آفاق کی نفی یا اثبات آپ کے لئے کافی نہیں ہے .کیونکہ مکّہ کا افق ایران کے افق سے ایک رات قبل ہے اگر مکّہ معظمہ میں چاند دیکھنے کے سلسلہ میں غور و خوض کرنا ہر جگہ سے زیادہ مسلم ہے ۔اس بنا پر ایران میں مہینہ کی پہلی اور آخری تاریخ عام طور سے مکہ مکرمہ سے ایک روز بعد ہی ہے۔
« وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ۖ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ» (187 بقره)
اس وقت تک کھاو اور پیو جب تک کے سیاہی سے سفیدی نمودار ہو جائے اس کے بعد رات تک روزہ کو تمام کرو۔
اور « صم للرؤیۃ واافطر للرؤیۃ » والی روایت ،چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو
چاند دیکھنا خواہ صبح ہو یا رات میں ،خواہ مسلح آنکھوں سے ہو یا عادی ۔ہر صورت آیات اور مذکورہ بالا متواترروایات کے مطابق ماہ مبارک رمضان میں داخل ہونے اور اس سے خارج ہونے کی دلیل ہے ۔
آیہ « وَكُلُوا وَاشْرَبُوا» امساک اور افطار کا وقت فجر سے رات تک معین کرتی ہے ۔اور اسی طرح آیہ«فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ »پورے مہینہ روزہ رکھنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے۔
چاند دیکھنا خواہ صبح کو دیکھائی دے یا رات کو یہ ماہ مبارک رمضان کے آغاز اور انجام کو معین کرتا ہے۔روزہ رکھنے کا آغاز یا اختتام چاند دیکھنے کے بعد ہی ممکن ہوگا۔
اگر چہ ماہ مبارک کے اختتام پر شاید چاند صبح یا ظہر کے بعد دیکھائی دے لیکن ابتدا سے ایک دن کے تمام ہونے تک روزہ فجر سے رات تک ہے ۔ لہذا ہمیں«ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ »کے مطابق چاند دیکھنے کے بعد اسے تمام کرنا چاہیئے اور« صم للرؤیۃ واافطر للرؤیۃ » والی روایت روزہ کے شب تک تمام کرنے سے مانع نہیں ہوگی ۔
قابل ذکر ہے کہ آیت اللہ ڈاکٹر محمد صادقی تہرانی کے ایک شاگرد کے بقول کے کہتا ہے:میں نے استاد سے سنا ہے کہ صبح کے وقت رمضان کا چاند دیکھنا اس دن روزہ رکھنے یا نہ رکھنے پر دلیل ہوگی ۔یہ قول تحقیق طلب ہے کیونکہ ہمیں یہ جاننا چاہیئے ہ کوئی خاص موقع و محل تھا یا بطور کلی ہے؟آئندہ جلسہ میں آپ کے شاگردوں کی علمی کمیٹی اس کی تحقیق اور بررسی کرے گی اور نتیجہ کا اعلان کیا جائے گا۔اور آقا کاظم ندائی کا قول کی پہلی اور آخری تاریخ مکہ مکرمہ کی بنیاد پر ہونی چاہیئے تا کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا ہو اگر چہ آیۃ اللہ العظمی ڈاکٹر محمد تہرانی کے شاگرد کے عنوان سے بیان کیا جاتا ہے اور یہ ان کا ذاتی نظریہ ہے ۔کیونکہ محمد صادقی طاب ثراہ کی رسالہ نوین کے مسئلہ نمبر 400کے مخالف ہے اور اسی طرح مذکورہ بالا تینوں اصول اور عقل کے بھی مخالف ہے اور اسےمردود قرار دیا جاتا ہے۔